#Murtaza Wahab
Explore tagged Tumblr posts
Text
کراچی مئیر الیکشن اور معاشی صورتحال
کراچی میئر کے انتخابات میں تحریک انصاف کے 31 ارکان کے اغواء اور دھاندلی کے ذریعے پیپلز پارٹی کے امید وار مرتضی وہاب کی کامیابی نے وطن عزیز پاکستان کے انتخابی نظام سے متعلق کئی سوالات اٹھا دئیے ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ دھونس و جبر کے ذریعے دھاندلی زدہ الیکشن کو کراچی کے عوام آخر کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ کراچی ایک سیاسی شعور رکھنے والا شہر ہے۔ اس کو اپنی حقیقی قیادت سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے؟ یہ کیسا مذاق ہے کہ جماعت اسلامی کی حمایت کرنے والے تحریک انصاف کے اک��یس ارکان کو انتخابی عمل سے دور کر دیا گیا؟ جماعت اسلامی کی طرف سے مئیر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی کے عوام کے حق پر ڈاکہ مارا گیا ہے اور وہ اس الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایک سو اکیانوے ارکان کی اکثریت رکھنے والے حافظ نعیم الرحمن کو ہرا دیا گیا ہے اور پیپلز پارٹی ایک سو تہتر ارکان کے ساتھ مرتضی وہاب کو جتوانے میں بالاآخر کامیاب ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریتی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کا مئیر نہیں بننے دیا گیا۔ تحریک انصاف کے اکتیس ارکان کے لاپتہ ہونے کے بعد تو کراچی مئیر کے الیکشن کا سارا عمل ہی مشکوک ہو گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو کراچی میں اکثریتی مینڈیٹ رکھنے والی پارٹی جماعت اسلامی کو مئیر شپ دے دینی چاہئے تھی مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی اگر کراچی میں حقیقی نمائندگی حافظ نعیم الرحمن کو دے دیتی تو شہر قائد کی حالت بدل جاتی اور ترقی کا عمل شروع ہو جاتا۔ حافط نعیم الرحمن نے بھی واضح طور پر پیغام دے دیا ہے کہ وہ کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کو چرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکتیس ارکان کو اغواء کرنے اور کراچی کے مینڈیٹ کو ہتھیانے کے خلاف وہ پرامن احتجاج کریں گے اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔ اب پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کا یہ امتحان ہے کہ وہ اس سنگین اور مشکل صورتحال سے کیسے نکلتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کراچی مئیر کے الیکشن میں کھلم کھلا دھاندلی اور جبرو دھونس سے سندھ حکومت کی بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ اگر حافط نعیم الرحمن کراچی کا مئیر بن جاتا تو کون سی قیامت آجاتی؟۔ پیپلزپارٹی کو اپنے اس غیر جمہوری روئیے پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
کراچی کی طرح پورے ملک میں عوام غیر یقینی کیفیت اور اضطراب میں مبتلاء ہیں۔ دن بدن بڑھتی ہوئی ہوشربا مہنگائی نے بھی غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اب لوگ دو وقت کی بجائے ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی طرح پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی قوم کو مایوس کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دور حکومت میں بد ترین معاشی کارکردگی دکھائی ہے۔ اب پاکستان کے عوام کی نظر یں اکتوبر میں عام انتخابات پر ہیں کیونکہ ملک کے تمام مسائل کا حل بروقت اور شفاف انتخابات میں ہے۔ مقام افسوس ہے کہ پی ڈی ایم کے بعض وزراء کی جانب اس سال اکتوبر میں الیکشن کی ��اخیر کے بیانات آئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اکتوبر میں الیکشن نہیں چاہتی بلکہ وہ عام انتخابات کو اگلے سال تک لے جانا چاہتی ہے۔ انتخابات میں تاخیر جمہوریت کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لئے پی ڈی ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے۔
عوام پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں کی کارکردگی دیکھ چکے ہیں، سب نے عوام کو مہنگائی کے عذاب تلے دبائے رکھا، ان لوگوں کے پاس عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے، نا اہل اور کرپٹ مافیا کو جب تک مسترد نہیں کر دیا جاتا، اور ملک کی بھاگ دوڑ ایماندار لوگوں کے سپرد نہیں کر دی جاتی اس وقت تک ملکی حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ وقت اور حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ وطن عزیز میں چور دروازے سے جو بھی بر سر اقتدار آیا اس نے 25 کروڑ عوام کو صرف مایوس کیا ہے۔ اس نے لوٹ مار کر کے اپنی تجوریوں کو بھرا۔ ان کے نزدیک عوام کیڑے مکوڑے ہیں۔ پاکستان اس وقت نازک ترین موڑ پر پہنچ چکا ہے، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم اتحاد کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں 10 کروڑ افراد سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔ وفاقی بجٹ سے بھی قو م کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔
طرفا تماشا یہ ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ 144 کھرب 60 ارب روپے کا ہے جو بجٹ 69 کھرب 24 کھرب خسارے کا بجٹ ہے۔ یہ محض الفاظ کا گورکھ دھندہ دکھائی دیتا ہے جس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ حکومت کو تنخواہوں اور پنشن میں بھی مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرنا چاہئے تھا۔ اسی طرح مزدور کی کم از کم اجرت 40 ہزار روپے کی جانی چاہئے تھی تاکہ مہنگائی سے تنگ عوام کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ کم آمدنی والوں کے لئے تو وفاقی بجٹ میں توقع کے مطابق کچھ نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ معاشی استحکام اور مہنگائی کم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4 اعشاریہ 6 فیصد جبکہ فی کس آمدنی ایک ہزار 568 ڈالر کی کم ترین سطح پر اور معیشت سکڑ کر 341 ارب ڈالر پر آ گئی ہے۔ اگر رواں سال اکتوبر میں صاف شفاف انتخابات ہونگے تو ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا۔ اس وقت اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
#trending news#pakistan news#mayor karachi#karachi mayor election#pakistan election 2023#hafiz naeem ur reham#murtaza wahab#votes#pakistan votes
0 notes
Text
میئر کراچی کا انتخابی معرکہ
پاکستان کی بڑھتی بس پلتی مایوس اور مبتلائے عتاب و عذاب نئی نسل پر ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخ کی یہ حقیقت تو اب مکمل بے نقاب ہے کہ : آئین پاکستان کا اطلاق فقط جیسے تیسے الیکشن سے تبدیلی و تشکیل حکومت تک محدود رہا ہے۔ جمہوریت کا یہ لبادہ بھی مملکت کو جمہوری ہونا تو کیا منواتا اس سے متصادم ادھوری سی قوم اور دنیا بھر میں ہم مارشل لائوں کی بے آئین سرزمین، مسلسل عدم استحکام میں مبتلا جھگڑالو اور غیر منظم ریاست اور قوم سمجھے گئے۔ اپنی تاریخ کے سیاسی ریکارڈ حقائق و ابلاغ میں بھی اور دنیا کی نظر میں بھی۔ کج بحثی اور جھوٹے جواز کی آڑ لینا الگ اور یکسر منفی رویہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہی سچ ہے پہاڑ جیسی اٹل حقیقت آئینی و سیاسی جھگڑے میں پاکستان کا فقط 24 سال میں ہی دولخت ہو جانا اور ملکی موجود گمبھیر صورتحال ہے جس کے بڑے فیصد کی تشکیل گزرے تیرہ ماہ میں ایسے ہی سیاسی فساد اور آئین سے بدترین سلوک سے ہوئی۔ پاکستان کا قیام تو بلاشبہ، متعصب ہندو اکثریت اور فرنگی راج میں رہتے، بدلے زمانے کی حقیقتوں کے ساتھ اکابرین مسلمانان ہند کا جدید دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والا کارنامہ تھا ہی سرسید، اقبال و قائد کی دور بینی علمی و عملی جدوجہد اور رہنمائی اور تاریخ پاکستان کے سنہری ابواب ہیں۔
قائداعظم کو اگر حاصل منزل کے بعد نومولود مملکت کو سنبھالنے اور ارادوں اور تصورات کے مطابق بنانے کی مہلت نہ ملی تو اس کا راستہ تو وہ تین الفاظ اتحاد، ایمان، تنظیم کے کمال روڈ میپ کے ساتھ پھر بھی دکھا گئے۔ اگلی تاریخ (ایٹ لارج) اس سے مختلف سمت میں چلنے کی ہے۔ یہ ہے موجود بدترین ملکی سیاسی و آئینی و انتظامی بحران، جس میں ایک بہت مہلک قومی ابلاغی بحران کے جنم کا اضافہ ہوا ہے، کا پس منظر ایسا نہیں کہ قائد کی رخصتی کے بعد قوم مکمل ہی گمراہی میں چلی گئی، جب کبھی اتحاد، ایمان و تنظیم کا دامن پکڑا، بگڑتی قوم کے نصیب جاگ گئے، پاکستان سنبھلا اور نیک نامی اور بہت کچھ پایا، لیکن آئین سے روگردانی، بار بار اسے توڑنے پھوڑنے اور اپنی سیاست کے لئے اس سے کھلواڑ کو سیاست دانوں، جرنیلوں اور ججوں نے اپنے اپنے دائروں سے باہر نکل کر وہ کھلواڑ کیا کہ ملک بھی آدھا گیا اور اگلے عشروں کے سفر میں آج وینٹی لیٹر پر نہیں بھی تو آئی سی یو میں تو ہے اور تیرہ مہینے سے ہے۔
پاکستانی بیش بہا پوٹینشل ایسے ٹیسٹ ہوا کہ اتحاد، ایمان اور تنظیم مطلوب سے بہت کم مدتی مقدار میں ہوتے بھی ایٹمی طاقت بن گیا، پانچ گنا دشمن کے حملے کا کامیاب دفاع کیا، طویل العمر آمرانہ ادوار میں بڑی جمہوری و پارلیمانی قوتوں اور تحریکوں کی تشکیل و تنظیم ہوتی رہی۔ اور بہت کچھ۔ لیکن اس سے مکمل جڑی تلخ حقیقت ملک و آئین شکنی سے لے کر بنے بنائے چلتے چلاتے پاکستان پر قابض مافیہ راج (OLIGARCHY) کے مسلسل حملوں سے ہوئے بار بار ڈیزاسٹر ہیں۔ شاخسانہ پوری قوم کو خوف و ہراس اور سب اداروں کو تقسیم و مسلسل دبائو میں مبتلا رکھنے والا سیاسی و آئینی اور انتظامی و ابلاغی بحران جاری ہے۔ ماہرین آئین وسیاسیات حتمی رائے دے رہے ہیں کہ حکومتی سیاسی کھلواڑ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کو روکنے، عدلیہ کو دھونس دھاندلی سے نیم جامد کرنے اور دونوں صوبوں پر مکمل حکومت نواز فسطائیت اخیتار کی قطعی غیر آئینی نگراں حکومتوں کے تسلط سے ملکی آئین ٹوٹ چکا۔ چلیں! اتنی معتبر اور پیشہ ورانہ آرا سے بھی اختلاف کر کے ہم اختتام آئین کی بار بار علانیہ بلکہ چیخ پکار سے آئی ماہرین کی اس رائے سے جزوی اختلاف کرکے اتنا مان لیتے ہیں کہ آئین وزیر دفاع کی رائے (کے مطابق بھی نہیں) ملک وینٹی لیٹر پر بھی نہیں، بلکہ آئی سی یو میں ہے۔ اتنا تو ماننا ہی پڑے گا، وہ بھی فقط اس لئے کہ گردو نواح سے ظہور پذیر ہوتے مواقع حوصلہ دلاتے ہیں کہ بیمار بحال ہو سکتا ہے۔
15 جون 2023ء کو آئی سی یو میں سسکتے آئین کا ایک حساس ٹیسٹ ہونے والا ہے۔ اس کا نتیجہ آنے والے سالوں میں واضح طور پر ملکی قومی صحت کے بہتر ہونے یا بگڑنے کا تعین کرے گا۔ تین روز بعد کراچی کے میئر کے انتخاب کا سیاسی معرکہ ہونے والا ہے۔ ’’معرکہ‘‘ اس لئے کہ یہ کوئی معمول کا انتخاب نہیں، آئین کی بنتے ہی بڑی خلاف ورزی، جو اب تک ہو رہی ہے یہ ہوتی رہی اور جاری ہے کہ آئین میں جمہوریت کی تین بنیادی جہتوں (قومی، صوبائی اور مقامی منتخب حکومتوں کا قیام) میں سے عوام الناس کے حقوق و مفادات کی عکاس ’’مقامی حکومتوں کے نظام‘‘ کو سول منتخب حکومت نے غصب کر کے آئینی لازمے کے مطابق معمول بننے ہی نہیں دیا ۔ مارشل لائوں میں ہی سول سپورٹ لینے کے لئے اس پر عملدرآمد کر کے مارشل لا رجیمز ک�� ہضم کرنے میں بڑے فیصد کی مد�� لی گئی۔ ایوبی دور تو اس کا مخصوص ماڈل (بی ڈی سسٹم) قائم کر کے ہی فرد واحد کی حکومت کو ’’جمہوری‘‘ بنا دیا گیا، جو خاصا ہضم ہو گیا تھا۔ آئین سے منحرف ہوتے بلدیاتی اداروں کے قیام کو روکے رکھنے کا سب سے متاثرہ شہر، شہر عظیم کراچی اور دیہی سندھ ہے۔ کراچی کی تیز تر ترقی ہو کر بھی اسی کھلواڑ سے ریورس رہی اور دیہات پسماندہ ہی رہے۔
موجود سندھ حکومت کے تو بس میں نہیں کہ وہ کوڑا اٹھانے، پانی کی تقسیم، نالوں کی صفائی، ٹرانسپورٹ ہر ہر عوامی سروس اپنے ہی اختیار میں رکھے اور رکھ کر بھی کچھ نہ کرے۔ کراچی کی واضح حالت زار کے سینکڑوں ثبوت ریکارڈ پر ہیں۔ اب بھی جو بلدیاتی انتخاب جماعت اسلامی کی جدوجہد اور عدالتی فیصلوں سے ممکن ہوا اس میں بڑا کھلواڑ مچا کر اکثریتی جماعت اسلامی کے واضح منتخب ہوتے میئر کا راستہ روک کر، میئر کی جگہ اپنے مسلط کئے سابق ایڈمنسٹریٹر کو ہر حالت میں میئر بنانے کے لئے ہر غیر جمہوری اور غیر آئینی و غیر قانونی حربہ استعمال ہو رہا ہے، جیسے چار مرتبہ انتخاب کا التوا۔ الیکٹرول کالج میں چمک کے استعمال (ہارس ٹریڈنگ) سے لے کر سیاسی مخالف کونسلروں کے اغوا اور غائب ہونے کی خبروں، ثبوتوں اور الزامات سے میڈیا بھرا پڑا ہے۔ خصوصاً تحریک انصاف سے جماعت اسلامی کے میئرشپ کے انتخاب پر اتحاد کے بعد تو کوئی راہ نہیں بچی کہ پی پی کا میئر منتخب ہو لیکن صوبائی وزراء کے دعوئوں کے مطابق 100 فیصد ان کا میئر بننے والا ہے۔ پی پی اپنے جمہوری ہونے کی دعویدار تو بہت ہے لیکن اس کا ہی نہیں اصل میں تو زخمی آئین کا ٹیسٹ ہونے کو ہے۔ 15 جون کا یہ انتخابی معرکہ پاکستان میں شدت سے ملک میں مطلوب آئینی عمل کی بحالی کا نکتہ آغاز بھی بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آئی سی یو میں پڑے مریض کی حکومتی مرضی سے بنی کوئی ٹیلر میڈ رپورٹ آگئی تو کراچی ہی نہیں پورے ملک پر اللّٰہ رحم فرمائے۔ وماعلینا الالبلاغ ۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
With compliments from, The Directorate General Public Relations,
Government of the Punjab, Lahore Ph. 99201390.
No. 1526/Abdul Ali/Umer
HANDOUT (A)
CM WARNS MS GANGA RAM HOSPITAL TO IMPROVE THE HOSPITAL AFFAIRS DURING HIS SURPRISE INSPECTION
LAHORE, Dec 27:
Chie Minister Punjab Mohsin Naqvi made a surprise visit to Ganga Ram Hospital on Wednesday where cleanliness arrangements were inadequate. There were piles of the most severe filth and dirt in the washrooms. Patients and their attendants complained about being charged for surgeries in the hospital. A female patient also complained about having to procure medicines from outside.
Expressing strong dismay, CM Naqvi issued a final warning to MS, stating that hospital affairs should be rectified without further delay. He said, "I am giving you a final warning; I will visit again soon. If the situation does not improve, you will be held responsible." He ordered an inquiry into the incident of charging money for surgery by the Chief Minister's Inspection Team and directed the CMIT to immediately reach the hospital to probe the matter and submit the inquiry report to him by this evening. He further ordered to refund the money and told the MS, "If even a single round of the hospital had been conducted by you, the cleanliness situation would not have been like this. I don't want to see any dirt on my next visit." He also inspected the upgradation work and ordered to complete the project within the timeframe, emphasizing that there would be no tolerance for delays in the upgradation work.
*****
No.1527/Abdul Ali/Umer
HANDOUT (A)
CM PUNJAB CONDUCTS INSPECTION OF LOW-COST HOUSES IN RAIWIND
LAHORE, Dec 27:
The caretaker Punjab government has successfully revitalized another stalled welfare project, completing the construction of 245 houses under the low-cost housing scheme in Raiwind. These affordable homes are slated to be handed over to deserving government employees on January 15, following the special directives of Chief Minister Mohsin Naqvi.
CM Mohsin Naqvi inspected the newly constructed houses in Rakhpaji, Raiwind, thoroughly assessing the provided facilities. He directed to take immediate steps so that the government employees could reside in them. He also emphasized the timely completion of sewerage and drainage facilities along with the redressal of any outstanding issues related to house allotment. FWO officials briefed the CM about the scheme. Chief Secretary, ACS, secretaries of housing, C&W, local government, commissioner Lahore, and representatives of the Bank of Punjab were also present.
*****
No.1528/Abdul Ali/Umer
HANDOUT (A)
CM PUNJAB REVIEWS UPGRADATION WORK AT SERVICES HOSPITAL
Lahore, Dec 27:
Chief Minister Punjab Mohsin Naqvi conducted a comprehensive inspection of the ongoing construction activities at Services Hospital and reviewed the progress made in enhancing the hospital's infrastructure.
The CM directed the MD WASA to lay a new drainage line adding that the hospital's drainage system will be changed by laying new pipes along with the construction of a pumping station for efficient water drainage.
He also inspected the construction work in various sections, underscoring the importance of maintaining high-quality standards in the upgradation process. He engaged with the labourers, encouraging them to exert extra effort. The CM commended another labourer who replied that their shift ends at 2 a.m.
Provincial Ministers Amir Mir, Azfar Ali Nasir, Advisor Wahab Riaz, secretary housing, secretary health, secretary C&W and others were also present.
*****
No.1529/Abdul Ali/Umer
HANDOUT (A)
FEDERAL INFORMATION MINISTER COMMENDS CM NAQVI'S SWIFT PROJECT COMPLETION STEPS
LAHORE, Dec 27:
Federal Information Minister Murtaza Solangi met Chief Minister Punjab Mohsin Naqvi at his office. Provincial Information Minister Amir Mir was also present on this occasion. The meeting centered around matters of mutual interest, addressing challenges within the media industry, and formulating measures for the welfare of the journalist community.
*****
No.1530/Abdul Ali/Umer
HANDOUT (A)
CM PUNJAB CONGRATULATES NATION ON THE SUCCESSFUL TEST OF FATEH-2 MISSILE
LAHORE, Dec 27:
Chief Minister Punjab Mohsin Naqvi congratulated the nation on the successful test of the Fateh-2 missile. He said that the Pak Army, scientists and engineers deserve praise for the successful experiment adding that Pakistan has achieved another milestone in its defense capabilities. Fateh-2 missile incorporates the latest technology and this will further strengthen Pakistan's defense capabilities, he added.
*****
0 notes
Link
Karaçi Belediye Başkanı Avukat Murtaza Wahab Pazar günü, Safari Park'ta metropolün “ilk” zipline macerasını tanıttı. Bu vesileyle konuşan belediye başkanı şunları söylemiş oldu: "Bu, Karaçi'deki ilk ziplinedır."Başarılarını hatırlatan belediye başkanı, aile parkının arazisinde aslına bakarsanız bir Dino Safari Parkı geliştirdiklerini belirterek, hükümetin liman kentindeki insanlara dinlenme tesisleri sağlamaya çalıştığını ekledi. Coğrafi Haberler bildirdi. "Çoğumuz Karaçi'nin ihtişamının tekrardan kazanılmasını istiyoruz."Yedi Karaçi bölgesinin tamamında kalkınma projeleri üstünde çalışmaların sürdüğünü söyleyen kendisi, liman şehrinde daha çok park açılacağının sözünü verdi."Vatandaşlara Dubai ve Tayland'a gitmelerine gerek kalmaması için dinlenme tesisleri verilecek" dedi. Kısa sürede aile parkında vatandaşlara binicilik imkanı sağlanacağının sözünü verdi. PPP liderliğindeki hükümetin insanları kolaylaştırmayı amaçlayan başarılarından ve projelerinden bahseden belediye başkanı, “Eleştirilere maruz kalıyoruz, [despite] çalışıyoruz."MQM liderliğindeki eski mahalli yönetime sert tepki gösteren Wahab, Karaçi'deki insanların probleminin güçten değil niyetten kaynaklandığını anladığını söylemiş oldu.“Polis, rögar kapaklarının çalınması mevzusunda harekete geçmeli.” Belediye başkanı, “istediğiniz kadar” rögar kapağı sağlayacağının sözünü verdi.“Açık rögarlar” mevzusuna yönelen PPP lideri, rögar kapağının satılan ortalama 3,5 kilogram demir içerdiğini söylemiş oldu.
0 notes
Link
[ad_1] Karachi Mayor Barrister Murtaza Wahab on Friday visited the route fixed for mourners to take during their 9th and 10th Muharram processions, including the Nishtar Park (the starting point) and the Hussainian Iranian Imambargah in Kharadar (the end point). Wahab assured mourners of all the support. Sindh Solid Waste Management Board (SSWMB) Managing Director Syed Imtiaz Ali Shah, Karachi police chief Javed Alam Odho and other officials accompanied the mayor on the occasion. The mayor also met with Shia clergy and assured them of making the best arrangements as far as his role is concerned. The mourners also appreciated the cleanliness measures taken by the SSWMB for the procession.Wahab said Muharram is a sacred month, and facilitating mourners is their foremost priority. He said that all municipal officials and departments are working in complete coordination, and would provide all assistance for the Muharram processions. SSWMB MD Shah said that all the officials are working in coordination with the administrations of all the processions and imambargahs for providing a better service as far as their part is concerned.He said that their teams are deployed around imambargahs and mosques for cleanliness measures, adding that they are busy making sure that the streets remain clean, for which they are spraying water and limestone on roads.The chief of the solid waste management board also said that a relief camp has been established near the Radio Pakistan building in order to facilitate the participants of the processions. He said that even during the processions the SSWMB staff would pick up garbage. He also said their complaint centres and their helpline number 1128 are functional round the clock. [ad_2]
0 notes
Text
کراچی پولیس دفتر حملہ، تین شدت پسند ہلاک، عمارت کلیئر: مرتضیٰ وہاب
ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس دفتر پر ہونے والے حملے میں تین شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں اور عمارت کو اب مکمل کلیئر کر دیا گیا ہے۔ I can so far confirm that the KPO building has been cleared. 3 terrorists have been neutralised — Murtaza Wahab Siddiqui (@murtazawahab1) February 17, 2023 وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جمعے کی شام ایڈیشنل آئی جیز کے دفتر پر مبینہ حملے کا…
View On WordPress
0 notes
Text
کراچی پولیس دفتر حملہ، تین شدت پسند ہلاک، عمارت کلیئر: مرتضیٰ وہاب
ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس دفتر پر ہونے والے حملے میں تین شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں اور عمارت کو اب مکمل کلیئر کر دیا گیا ہے۔ I can so far confirm that the KPO building has been cleared. 3 terrorists have been neutralised — Murtaza Wahab Siddiqui (@murtazawahab1) February 17, 2023 وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جمعے کی شام ایڈیشنل آئی جیز کے دفتر پر مبینہ حملے کا…
View On WordPress
0 notes
Text
کراچی پولیس دفتر حملہ، تین شدت پسند ہلاک، عمارت کلیئر: مرتضیٰ وہاب
ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس دفتر پر ہونے والے حملے میں تین شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں اور عمارت کو اب مکمل کلیئر کر دیا گیا ہے۔ I can so far confirm that the KPO building has been cleared. 3 terrorists have been neutralised — Murtaza Wahab Siddiqui (@murtazawahab1) February 17, 2023 وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جمعے کی شام ایڈیشنل آئی جیز کے دفتر پر مبینہ حملے کا…
View On WordPress
0 notes
Text
SC orders removing Murtaza Wahab as Karachi administrator
SC orders removing Murtaza Wahab as Karachi administrator
ISLAMABAD: The Supreme Court (SC) has directed to remove Murtaza Wahab from the position of Karachi Administrator after he exchanged harsh words with the judges. A two-member bench of the top court’s Karachi Registry issued the orders while hearing a case related to encroachments. During the hearing, Karachi Administrator Murtaza Wahab was questioned for the progress on the anti-encroachment…
View On WordPress
0 notes
Photo
COVID-19 restrictions are anticipated to be relaxed in Sindh
Karachi’s new Administrator, Murtaza Wahab, stated Saturday that the administration has developed a consistent coronavirus lock-down strategy across Sindh that will be in line with federal guidelines.
Following the Covid-19, NCOC Taskforce meeting, he indicated that the government will release a Sunday limit notice during a media briefing.
“The decision to prohibit SIM cards has been a play changer.”
Wahab said that during the final week of July, coronaviral infections in Karashi and Hyderabad have fallen. People are more concerned about their phones than about their health.
More than 200,000 individuals have become immune from the deadly illness in the previous 24 hours. In the Abdul Khaliq Afghani ground, a drive-thru vaccination facility has been installed. There are 12 booths to enter data and 12 booths to immunise. The centre is open from 16:00 to 12:00.
Published in Lahore Herald #lahoreherald #breakingnews #breaking
0 notes
Text
مرتضیٰ وہاب، بڑے ہو کر کیا بنو گے؟
ساری زندگی صحافت میں گزارنے کے باوجود سیاستدانوں سے کبھی ذاتی دوستی یا دشمنی نہیں رہی۔ کسی پریس کانفرنس میں سن لیا یا کبھی انٹرویو کرتے ہوئے حال احوال ہو گیا، شاید ہی کبھی کسی نے کوئی آف دی ریکارڈ بات کی ہو۔ ایک دفعہ الطاف بھائی نے ٹیپ ریکارڈر بند کروا کر علامہ اقبال کی شان میں گستاخی کی تھی اور ایک بار بے نظیر بھٹو نے کسی ٹی وی سٹوڈیو جاتے ہوئے اپنا پرس تھما دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں جھانکنے کی کوشش مت کرنا۔ میرا خیال ہے وہ مردوں کی گھٹیا عادتوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب جب ابھی کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے نوجوان دوستوں سے ملاقات ہوتی تھی۔ تمام انکلوں کی طرح مجھے نوجوانوں سے بات کرنے کا ایک ہی طریقہ آتا تھا کہ بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ آج کل میں یہ بھی نہیں پوچھتا کیونکہ بعض دفعہ نوجوان یہ بھی پوچھ لیتے ہیں کہ مجھے چھوڑیں آپ بتائیں بڑے ہو کر کیا بنیں گے۔
مرتضیٰ وہاب کا جواب مجھے اچھی طرح یاد ہے ک��ونکہ میں نے کبھی اتنا سیدھا اور مختصر جواب نہیں سنا۔ اس نے کہا کراچی کا میئر۔ ایک اچھے انکل کی طرح مجھے اس کے جواب پر خوشگوار حیرت بھی ہوئی اور تھوڑی سی فکر بھی۔ میری عمر کے اور کلاس کے جو نوجوان سیاست میں جانا چاہتے تھے، وہ زیادہ سے زیادہ ایم پی اے یا ایم این اے بننا چاہتے تھے۔ ایک سندھی صحافی دوست تھا اس کا خواب سندھ کا وزیر اعلیٰ بننا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ وزیراعظم کیوں نہیں بننا چاہتا۔ شاید اسے بھی سمجھ نہیں آتی تھی، بس سندھ کے وزیر اعلیٰ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اگر یہ بن سکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔ مجھے نوجوان مرتضیٰ وہاب کے جواب سے اس لیے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اگر سیاست واقعی طاقت اور خدمت کا امتزاج بنے تو کراچی کے مئیر سے زیادہ اہم رتبہ پاکستان میں تو نہیں ہو سکتا۔
گلی محلے کی سطح پر لوگوں کے مسئلے حل کرو اور دعائیں اور ووٹ سمیٹو لیکن ایک دانشور انکل کے طور پر میں نے نوجوان مرتضیٰ کو سمجھایا کہ کراچی ایم کیو ایم کا شہر ہے۔ تم اپنی والدہ کے حوالے سے پی پی پی میں جاؤ گے نہ کبھی پی پی پی کراچی کے بلدیاتی انتخاب جیتے گی نہ تم میئر بنو گے۔ اب شنید ہے کہ مرتضی وہاب کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بننے جا رہے ہیں جو ہمارے ہاں تقریباً میئر ہی ہوتا ہے۔ تو اپنے پیارے نوجوانوں جب زندگی میں کچھ کرنے کا سوچو تو دانشور انکلوں کی باتوں پر کبھی یقین نہ کرنا۔ کراچی کے شہری کے طور پر میں نے فاروق ستار جیسے نرم خو مئیر نہیں دیکھے جنھیں اب مشاعرے کی صدارت کے لیے بھی کوئی نہیں بلاتا۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی ایک نوجوان ایڈمنسٹریٹر فہیم زمان کو لائی تھی جو اب کبھی کبھی شاندار تحقیقاتی صحافت کرتے ہیں، کبھی بھنا کے پولیس والوں سے پوچھتے ہیں کہ تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔
ایک دفعہ کراچی میں وہ دن بھی تھا کہ شہری اٹھے تو ہر سڑک، ہر چوک پر بینر لگے تھے کہ مصطفیٰ کمال پوری دنیا میں میئروں کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آئے ہیں۔ کراچی والوں نے کہا کہ ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا کہ یہ دو نمبر میئر ہے۔ وہ پہلے الطاف بھائی کو ووٹ لیتے تھے پھر انھوں نے الطاف بھائی کو شرابی اور غدار کہہ کر ووٹ لینے کی کوشش کی۔ کراچی والوں نے کہا جس دنیا نے تمھیں دو نمبر میئر چنا تھا اب وہیں جا کر ووٹ مانگو۔ کراچی کے زوال کا سفر فہیم زمان یا فاروق ستار کے میئر بننے سے شروع نہیں ہوا بلکہ شاید یہ پہلے سے جاری تھا لیکن میں نے ہر میئر کے آنے اور جانے کے بعد سوچا کہ ایک کتاب لکھی جائے کہ میں نے کراچی ڈوبتے دیکھا۔
اگر لکھ دی ہوتی تو اب تک اس کا پانچواں ایڈیشن آ چکا ہوتا لیکن زیادہ تر وقت اس انتظار میں گزر گیا کہ پانی کا ٹینکر کب آئے گا اور کتنے کا آئے گا کیونکہ جس شہر کے ایڈمنسٹریٹر بن کر مرتضیٰ وہاب اپنا پچپن کا خواب پورا کرنے جا رہے ہیں وہاں شہریوں کے حصے کا پانی چرا کر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن جیسے علاقوں کو دیا جاتا ہے اور پھر وہاں سے کچھ چرا کر ہمیں بیچا جاتا ہے۔ یہاں شہر کے ایک طرف سمندر میں کچرا ڈال کر اپنی جھونپڑیاں بنا لیتے ہیں اور اسے تجاوزات کہا جاتا ہے، کلفٹن میں سمندر میں مٹی ڈال کر فلیٹ بنائے جاتے ہیں جو آٹھ دس کروڑ کے بکتے ہیں اور اسے ڈویلپمینٹ کہا جاتا ہے۔ مرتضیٰ وہاب کو ان کے خواب کی تعبیر مبارک لیکن انھیں ووٹ اور دعائیں تب ہی ملیں گی جب ہمارے نلکوں سے روٹھا ہوا پانی واپس آئے گا۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
لاوارث شہر کا ’میئر‘ کون
وہ شاعر نے کہا تھا نا’’ ؎ مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں۔‘‘ ابھی ہم پہلے سال کی بارشوں کی تباہ کاریوں سے ہی باہر نکل نہیں پائے کہ ایک اور سمندری طوفان کی آمد آمد ہے۔ اب خدا خیر کرے یہ طوفان ٹلے گا یا میئر کا الیکشن جو کم از کم کراچی میں کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں۔ ویسے تو مقابلہ پی پی پی کے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے درمیان ہے مگر دونوں کی جیت اس وقت زیر عتاب پاکستان تحریک انصاف کے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر منحصرہے، وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ اتوار کے روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بڑے پراعتماد نظر آئے اور کہا نہ صرف میئر کراچی ایک ’جیالا‘ ہو گا بلکہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سندھ کے لوگ پی پی پی کو ووٹ دیں گے۔ بظاہر کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے مگر شاہ صاحب پہلے آنے والے طوفان سے تو بچائیں۔ دوسری طرف اسی شام جماعت اسلامی نے، جس کی شکایت یہ ہے کہ پی پی پی زور زبردستی سے اپنا ’میئر‘ لانا چاہتی ہے، سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ’مدد‘ طلب کی ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق خصوصی طور پر کراچی آئے کیونکہ یہ الیکشن جماعت کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاید پورے پاکستان میں یہ واحد بلدیہ ہے جہاں ان کا میئر منتخب ہو سکتا ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کے تمام منتخب بلدیاتی نمائندے حافظ نعیم کو ووٹ دے دیں۔ ماضی میں جماعت کے تین بار میئر منتخب ہوئے دو بار عبدالستار افغانی 1979ء اور 1983ء میں اور جناب نعمت اللہ ایڈووکیٹ 2001 میں، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1979ء میں پی پی پی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جیسا آج پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ افغانی صاحب کا جیتنا مشکل تھا البتہ 1983ء میں وہ باآسانی جیت گئے اور دونوں بار ڈپٹی میئر پی پی پی کا آیا۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کا یہاں کی سیاست میں بڑا اسٹیک ہے۔ اسی طرح نعمت اللہ صاحب کو 2001 کی میئر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے طفیل ملی جنہوں نے اس وقت کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جو ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا۔
اب تھوڑی بات ہو جائے پی پی پی کی بلدیاتی سیاست کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ 22 اگست 2016ء کے بعد جو ہوا اس سے شہری سندھ کا سیاسی توازن پی پی پی کے حق میں چلا گیا اور پہلی بار دیہی اور شہری سندھ کی بلدیاتی قیادت ان کے ہاتھ آنے والی ہے، جس میں حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور نواب شاہ شامل ہیں۔ پی پی پی پر تنقید اپنی جگہ مگر کسی دوسری سیاسی جماعت نے اندرون سندھ جا کر کتنا سیاسی مقابلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا 29 سال پرانی تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)۔ رہ گئی بات ’قوم پرست‘ جماعتوں کی تو بدقسمتی سے یہ صرف استعمال ہوئی ہیں ’ریاست‘ کے ہاتھوں۔ ایسے میں افسوس یہ ہوتا ہے کہ اتنی مضبوط پوزیشن میں ہونے اور برسوں سے برسر اقتدار رہنے کے باوجود آج بھی سندھ کا اتنا برا حال کیوں ہے۔ شہروں کو ایک طرف رکھیں کیا صوبہ تعلیمی میدان میں آگے ہے کہ پیچھے۔ بارشوں کا پانی جاتا نہیں اور نلکوں میں پانی آتا نہیں۔
18ویں ترمیم میں واضح اختیارات کے باوجود۔ آج بھی منتخب بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے مرہون منت ہیں، آخر کیوں؟۔ چلیں اس کو بھی ایک طرف رکھیں۔ شاہ صاحب جس وقت پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ان کے دائیں اور بائیں سب منتخب نمائندے بیٹھے تھے، سوائے میئر کیلئے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں بات بھی شائستگی سے کرتے ہیں جس میں والدین وہاب اور فوزیہ وہاب کی تربیت بھی نظر آتی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یو سی کا الیکشن جیت کر امیدوار بنتے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر پی پی پی بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو کیا کوئی بھی منتخب نمائندہ اس قابل نہیں کہ ’میئر‘ کیلئے نامزد ہو سکے ایسے میں صرف ایک غیر منتخب نمائندے کو میئر بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ کیا یہ رویہ جمہوری ہے۔ مرتضیٰ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اور اب کیا آپ کی نامزدگی منتخب یوسی چیئرمین کے ساتھ ’تھوڑی زیادتی‘ نہیں۔
تعجب مجھے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ پی پی پی میں کچھ ایسا ہی چند سال پہلے بھی ہوا تھا جب پارٹی کی کراچی کی صدارت کیلئے رائے شماری میں تین نام تھے جن کو ووٹ پڑا مگر جب نتائج کا اعلان ہوا تو ایک صاحب جو دوڑ میں ہی نہیں تھے وہ کراچی کے صدر ہو گئے۔ ’جیالا‘ کون ہوتا ہے اس کا بھی شاید پی پی پی کی موجودہ قیادت کو علم نہ ہو کہ یہ لفظ کیسے استعمال ہوا اور کن کو ’جیالا‘ کہا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی چڑھ جانے والوں، خود سوزی کرنے اور کوڑے کھانے، شاہی قلعہ کی اذیت سہنے والوں کے لئے اس زمانے میں پہلی بار استعمال ہوا یعنی وہ جو جان دینے کے لئے تیار رہے اور دی بھی۔ اب مرتضیٰ کا مقابلہ ہے جماعت کے ’جیالے‘ سے یا انہیں آپ جماعتی بھی کہہ سکتے ہیں، حافظ نعیم سے ، جنہوں نے پچھلے چند سال میں خود کو ایک انتہائی محنتی اور متحرک سیاسی کارکن منوایا اور جلد کراچی شہر میں جماعت کی پہچان بن گئے۔ دوسرا 2016ء میں متحدہ کو ’ریاستی طوفان‘ بہا کر لے گیا جس کو حافظ نعیم نے پر کرنے کی کوشش کی اور بارشوں میں شہر کے حالات اور تباہی نے بھی انہیں فائدہ پہنچایا۔
مگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان آئی، پی ٹی آئی اور 2018ء میں 14 ایم این اے اور 25 ایم پی اے جیت گئے جس کا خود انہیں الیکشن کے دن تک یقین نہیں تھا۔ البتہ حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں نشستیں ضرور مل گئیں کہ کراچی کا میئر جو بھی منتخب ہو گا وہ ’پی ٹی آئی‘ کی وجہ سے ہی ہو گا چاہے وہ ووٹ کی صورت میں، مبینہ طور پر ’نوٹ‘ کی صورت میں ہو یا لاپتہ ہونے کی صورت میں۔ اگر 9؍ مئی نہیں ہوتا توشاید ان کے معاملات خاصے بہتر ہوتے، اب دیکھتے ہیں کہ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے کتنے نومنتخب نمائندے آتے ہیں اور کتنے لائے جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ووٹنگ اوپن ہے سیکرٹ بیلٹ کے ذریعہ نہیں۔ رہ گئی بات ’لاوارث کراچی‘ کی تو بھائی کوئی بھی آجائے وہ بے اختیار میئر ہو گا کیونکہ سیاسی مالی اور انتظامی اختیارات تو بہرحال صوبائی حکومت کے پاس ہی ہوں گے یہ وہ لڑائی ہے جو کسی نے نہیں لڑی۔ لہٰذا ’کراچی کی کنجی‘ جس کے بھی ہاتھ آئے گی اس کا اختیار 34 فیصد شہر پر ہی ہو گا۔ جس ملک کے معاشی حب کا یہ حال ہو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہو گا۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Link
Pakistan Halk Partisi'nden (PPP) Murtaza Wahab Pazar günü, Sindh eyaletindeki 14 bölgede meydana getirilen mahalli yönetim ara seçimlerinde Karaçi'nin Saddar Kasabası bölgesinden sendika komitesi (UC) başkanlığı koltuğunu kazanmıştır.Resmi olmayan sonuçlara bakılırsa Karaçi belediye başkanı, 1.556 oy alan Cemaat-i İslami'nin (JI) Nur-ul-İslam'ına karşı 3.976 oy almayı başardı.Ayrıca PPP'den Karaçi Belediye Başkan Yardımcısı Salman Murad da Karaçi'nin Malir kazasından başkanlık koltuğunu kazanmıştır.Sonuçların açıklanmasının arkasından neşeli PPP işçileri zaferi kutlamak için sokaklara döküldü Karaçi belediye başkanlığı seçimleri bu senenin Haziran ayında yapılmış oldu ve Sindh Mahalli Yönetim (Değişim) Yasası uyarınca, belediye başkanı ve belediye başkan yardımcısının, seçildikten sonraki altı ay içinde UC başkanlık seçimlerine iştirak etmesi ve kazanması gerekiyor.Malir'in Gadap ilçesindeki UC-7'deki 15 sandıktan alınan resmi olmayan sonuçlara bakılırsa Murad 4 bin 717 oy alırken, JI'dan Ayub Khaskheli 951 oy aldı.PTI'dan Abdul Hafeez Jokhio 175 oy aldı.PPP'den Saifullah Noor, Mauripur nahiyesindeki UC-3'ten 5.466 oy alarak başkan seçildi.Geri dönen işyar Kemari'ye bakılırsa, JI'dan Muhammad Hussain 788 oyla ikinci olurken, onu yalnızca 606 oy almayı başaran PML-N'den Muhammad Shahid Iqbal izledi.Geri dönen yetkili, UC-3 Maripur Nahiyesindeki katılımın %29'da kaldığını ve toplam 25.512 kayıtlı seçmenden 7.485 kadar seçmenin oy kullandığını söylemiş oldu.Pakistan Seçim Komisyonu'na (ECP) bakılırsa, Karaçi, Sukkur, Ghotki, Khairpur, Jacobabad, Larkana, Shaheed Benazirabad, Naushahro Feroze ve öteki bölgelerde mahalli yönetim ara seçimleri yapılmış oldu.ECP, oylamanın 21 iskemle için sabah 8'den akşam 5'e kadar yapıldığını söylemiş oldu.Sindh'de 163 kadar sandık kuruldu ve bunlardan 72'si "yüksek derecede kırılgan", 89'u ise "kırılgan" deklare edildi.Komisyon, Karaçi'de 121 sandık kurulduğunu söylemiş oldu. Sandıklardan 42'si "oldukça kırılgan", 79'u ise "kırılgan" deklare edildi.İl Seçim Komiseri Ejaz Anwar Chohan, ilgili tüm yetkililere adil ve saydam seçimlerin sağlanması yönünde yönerge verdi.ECP ek olarak seçim sürecini seyretmek için bir denetim odası kurdu.
0 notes
Photo
وفاق نے کراچی پیکج کے لیے 3 سال میں صرف 103 ارب روپے دینے ہیں، مرتضیٰ وہاب سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ وفاق عملی طور پر کراچی ٹرانسفورمیشن پلان کے تحت 3 سال میں صرف 103 ارب روپے دے گی۔
0 notes
Link
Notices to Bilawal Bhutto Zardari : They tell them to be quiet on public issues : Murtaza Wahab
0 notes